پسند کی شادی معاشرے میں کسی خطرے سے خالی نہیں ہے، اگرچہ گھر والوں کی لڑکی سے متعلق پریشانی جائز ہے کہ لڑکا کیسا ہوگا، مگر اب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے نے پسند کی شادی کرنے والوں کو ریلیف دیا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ میں ایک کیس زیر سماعت تھا جس میں لڑکا اور لڑکی نے پسند کی شادی کی تھی، لیکن لڑکی کے والدین کی جانب سے لڑکے کے خلاف بیٹی کو اغواء کرانے کی ایف آئی آر درج کرائی تھی۔
اس سماعت میں والدین کو اس مایوسی ہوئی جب بیٹی نے لڑکے کے ساتھ پسند کی شادی کا اعتراف کیا اور تحفظ کا مطالبہ بھی کیا۔ جس پر لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ سنایا کہ اب سے پسند کی شادی کرنے والے اپنا بیان کسی بھی صوبے میں کرمنل پروسیر کوڈ کی دفعہ 164 کے تحت قلمبند کروا سکیں گے۔
بالغ عمر میں پہچنے والے لڑکا اور لڑکی جو کسی بھی صوبے سے ہوں، وہ دفعہ 164 کے تحت ضلع کے مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان قلمبند کروا سکتے ہیں، اس صورتحال میں علاقے کا مجسٹریٹ دونوں کے بیان کے بعد انکار نہیں کر سکے گا۔
سیکشن 164 کا کے تحت بیان کی اہمیت کیوں ہے؟
سیکشن 164 کے بیان کی اہمیت اس لیے ہے کیونکہ ایک بیان پولیس کو دیا جاتا ہے اور دوسرا بیان مجسٹریٹ کو۔ مجسٹریٹ کو جو بیان دیا جاتا ہے اس کی اہمیت ہوتی ہے، اور وہ بیان سیکشن 164 کے تحت قلمبند کیا جاتا ہے۔
اکثر جب لڑکا اور لڑکی بھاگ کر شادی کرتے ہیں تو لڑکی والے لڑکے کے خلاف اغوا کی ایف آئی آر درج کرا دیتے ہیں، اس ایف آئی آر کو خارج کرنے کے لیے لڑکا اور لڑکی مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیتے ہیں، اسی بیان کی روشنی میں پولیس ایف آئی آر خارج کر دیتی ہے۔