۔ جو میرے ساتھ ہوا میں اپنی داستان کس کو سناؤں ۔ آئے میں آپ کو اپنی داستان سناتی ہوں کہ کیسے اپنے ہی ہاتھوں میں نے اپنی زندگی برباد کر لی ۔ جب میری شادی ہوئی تھی ۔ ب میری عمر 2 سال تھی میری ماں نے میری شادی ایک نابینا – لڑکے سے کر دی جس کی بہت سی جائیداد تھی میری ماں یہ سوچتی تھی
کہ ساری جائیداد میری بیٹی کی ہو جاۓ گی لیکن میں اپنے شوہر سے بالکل بھی خوش نہیں تھی جو حق بیوی کو چاہیے ہوتا ہے وہ مجھے اس سے نہیں مل رہاتھا ۔ میری شادی کو پانچ سال ہوگئے ہیں میرے دو بیٹے ہیں لیکن میں اپنے شوہر کے ساتھ خوش نہیں تھی ۔ اگر رشتہ داروں میں کہیں فنکشن ہوتا تو میں اکیلی ہی جاتی شوہر کو ساتھ نہیں لے کر جاتی تھی ۔
اگر میں اس کو کہیں لے جاؤ تو سب رشتہ دار مجھے باتیں کرتے تھے ۔ پھر میری زندگی میں اک ایسا موڑ آیا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ۔ میری خالہ کا بیٹا جو کہ گاؤں میں رہتا تھا وہ یہاں شہر ہمارے پاس کام کے سلسلے میں آ گیا اور ہمارے گھر پر رہنے لگا کیوں کہ اس کے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی ۔
ایک دن وہ اپنے کام سے آیا اور مجھے کھانے کا کہہ کر اپنے کمرے میں سیدھا چلا گیا میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت پریشان لگ رہا تھا ۔ میں کھانالے کر اس کے کمرے میں چلی گئی ۔ اس نے کھانا کھایا اور مجھے کہنے لگا کہ مدیحہ مجھے تم سے کچھ بات کرنی ے میں نے کہا کہ اسد بولو کیا بات کرنی ہے مجھ سے مجھے کہنے لگا کہ میں بہت پریشان ہوں وہ مجھے گندی گندی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ میرے پورے جسم کا جائزہ لے رہاہو ۔ میں بھی تو یہی چاہتی تھی کہ وہ میری طرف دیکھے میرے ہر وہ خواہش پوری کرے جو میراشوہر نہیں پوری کر رہا تھا اس نے مجھے کہا کہ میری بات مانو گی پلیز انکارمت کرنا اچانک سے مجھے باہر سے کسی کے آنے کی آواز سنائی دی ۔
میں جلدی سے کمرے سے باہر آنے لگی تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھے کہنے لگا کہ مدیحہ آج رات ہے تمہاری میں کتنے 1 : میرے پاس لازمی آنا مجھے بہت اشد دنوں سے بہت بے چین پھر رہا ہوں میں اس کی بات کو سمجھ گئی تھی کیونکہ میں تو شادی شدہ تھی اس کی بات اچھے سے سمجھتی تھی میں نے بھی ہنس کر اسے جواب دیا کہ میں لازمی آؤں گی مجھے اور کیا چاہیے تھا جو میں چاہتی تھی وہمجھے مل رہا تھا بس پھر جیسے ہی سب گھر والے سو گئے میں اس کے کمرے میں چلی گئی وہ میرا ہی انتظار کر رہا تھا ہم دونوں نے ساری رات ایک دوسرے سے پیار کیا ہم دونوں نے اپنے اپنے کپڑے اتاکر سائیڈ پر رکھ دیے تھے اور ہم دونوں اتنے پیاسے تھے کہ ساری رات نہیں سوۓ اور