رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ چار چیزیں جب تمہیں مل جائیں تو دنیا کی کسی چیز کے نہ ملنے پر افسوس نہ کرنا۔ پہلے نمبر پر۔ امانت کی پاسداری کرنا دوسرے نمبر پر۔ گفتگو میں سچ بولنا تیسرے نمبر پر۔ حسن اخلاق چوتھے نمبر پر۔ حلال و پاکیزہ روزی حدیث مبارکہ)سچ جنت کی طرف لے جاتا ہے: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب، دانائے غیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا: ’’بے شک صدق (سچ)نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور بے شک آدمی سچ بولتا رہتاہے یہاں تک کہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں صدیق (بہت بڑا سچا)لکھ دیا جاتا ہے اور بے شک کذب (جھوٹ) گناہ کی طرف لے جاتا ہے
اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے اور بے شک آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں کذاب (بہت بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘[3] (نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۲۷،۲۲۸) سچ بولنے کا حکم: ہرمسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے دِینی ودُنیوی تمام معاملات میں سچ بولے کہ سچ بولنا نجات دلانے اور جنت میں لے جانے والا کام ہے۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۲۲۸) يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (البقرة ١٧٢) اے ایمان والو ! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں رزق کے طور پر عطا کی ہیں، ان میں سے (جو چاہو) کھاؤ، اور اللہ کا شکر ادا کرو، اگر واقعی تم صرف اسی کی بندگی کرتے ہو۔
،مگر جب ان کے قریب جائیے تو فکر وعمل کا تضاد اور گفتار و کردار کااختلاف سامنے آتا ہے؛ لیکن رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ یہ ہے کہ ان کی گفتار جتنی پاکیزہ ہے، کردار اتناہی پاکیزہ نظر آتا ہے، تعلیم جتنی روشن نظر آتی ہے، سیرت اتنی صیقل دکھائی دیتی ہے، کہیں پر کوئی جھول یا کسی قسم کا کھوٹ نہیں، اوراس میں کوئی شک نہیں کہ آپ واقعی اس اعزاز کے مستحق تھے؛ کیوں کہ وہ کون سا خلق حسن ہے جو آپ کی ذات گرامی میں نہیں تھا، حیاء جس کو تمام اخلاق میں سب سے افضل اور عظیم ترین خلق قرار دیاگیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی میں اس کے دخل کا یہ حال تھا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باکرہ اور بے نکاح لڑکی اپنے پردے میں جس قدر حیا کرتی ہے اس سے کہیں زیادہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حیا دار تھے۔