یہ الفاظ ایک ایسے قیدی کے ہیں جو سزائے موت کے منتظر ہیں۔ عرفان عبدالرحمن نے صحافی اقرار الحسن کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ وہ پچیس سالوں سے قید میں زندگی گزار رہے ہیں۔
پھانسی کے منتظر قیدیوں کی آپ بیتی
ہر انسان آنے والے کل کی امید پر زندہ رہتا ہے لیکن زرا ان لوگوں کے بارے میں سوچیے جن کا آنے والا کل زندگی ختم ہونے کے خوف سے جڑا ہے۔ اس آرٹیکل میں ہم ایسے قیدیوں کے بارے میں بات کریں گے جنھیں معلوم ہے کہ انھیں پھانسی ہونے والی ہے اور ہر گزرتا لمحہ انھیں ایک تکلیف دہ موت سے قریب کررہا ہے
پھانسی سے پہلے قیدی کو الگ کردیتے ہیں
ایک سوال کے جواب میں عرفان نے بتایا کہ جب وہ جیل. میں آئے تو ان کی عمر 23 سال تھی لیکن اب وہ بوڑھے ہوچکے ہیں اور اس دوران اپنے کئی ساتھیوں کو پھانسی لگتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جسے پھانسی لگنی ہوتی ہے اسے پتہ چل جاتا ہے کیونکہ ایک ہفتہ پہلے اسے الگ جیل میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں اسے دودھ ڈبل روٹی کھانے کو دیتے ہیں۔ جب کسی قیدی کو پھانسی ہوتی ہے تو ہر دل پر خوف طاری ہوجاتا ہے
کوئی ملنے نہیں آتا
ایک اور قیدی کا کہنا تھا کہ ہم سے کوئی ملنے نہیں آتا۔ سال میں ایک بار رمضان کے مہینے میں ماں آتی تھیں اب پتہ نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔
موت کا سوچ کر کیسا محسوس ہوتا ہے؟
موت کا سوچ کر کیسا محسوس ہوتا ہے اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ دو ہی امید ہوتی ہے کہ یا تو پھانسی ہوجائے گی یا پھر ہم واپس اپنے گھر چلے جائیں گے۔ پھانسی ہونے کے بعد انسان کو اپنے گناہوں کا احساس ہوجاتا ہے اور وہ اللہ سے لو لگالیتا ہے تاکہ مرنے کے بعد اس کو خدا معاف کردے