خواتین اینکرز سر سے دوپٹہ نہیں اتار سکتی تھیں ۔۔ جانیے جنرل ضیاء کے ایسے سخت قوانین کے بارے میں، جو بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں
ویسے تو جنرل ضیاء پاکستان سمیت دنیا بھر میں مشہور تھے، لیکن پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد انہیں اچھے طور پر بھی یاد کرتی ہے۔
ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو اسی حوالے سے بتائیں گے۔
جنرل ضیاء الحق نے ایسے کئی قوانین متعارف کرائے تھے، جس نے سب کی توجہ حاصل کی تھی۔ جن میں سے چند آپ کو بتاتے ہیں۔
ڈکیتی کی سزا:
جنرل ضیاء کے دور میں چوری، ڈکیتی کی سزا ایسی تھی جسے سن کر کوئی بھی ڈکیتی کرنے کا سوچے گا نہیں۔ ڈکیتی کی سب سے بڑی سزا سزائے موت تھی جبکہ ہاتھ کاٹنا بھی سزاؤں میں سے ایک تھا۔
طلباء تنظیموں کے مظاہرے:
جنرل ضیاء کی جانب سے طلباء تنظیموں سے متعلق بھی ایک اہم قدم اٹھایا گیا تھا، یعنی طلباء کی جانب سے مظاہرہ کرنے پر 5 سال قید کی سزا کا قانون لایا گیا تھا۔
خواتین سے بدسلوکی:
جنرل ضیاء کے دور خواتین سے بدسلوکی کے خلاف بھی قانون لایا گیا تھا جس کے تحت خواتین پر تشدد کرنے والوں کو 10 سال قید کی سزا دی جا سکتی تھی۔
سیاسی مواد:
جنرل ضیاء کی جانب سے سیاسی مواد کی پبلیکیشن کے خلاف بھی قانون لایا گیا تھا جس کے تحت 5 سال قید کی سزا رکھی گئی تھی۔
باجماعت نماز اور جمعے کی نماز:
جنرل ضیاء کی جانب سے ایک اہم قدم یہ بھی اٹھایا گیا تھا کہ آفسز میں باجماعت نماز ادا کی جائے گی، جبکہ جمعے کی نماز کے لیے آفسز اور دکانیں بند رہیں گی۔
طلباء تنظیموں پر پابندی:
جنرل ضیاء کی جانب سے طلباء تنظیموں پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی۔
خواتین اینکرز کے لیے احکامات:
جنرل ضیاء نے ایک اہم حکم یہ بھی دیا تھا کہ کوئی بھی خاتون اینکر بغیر سر پر دوپٹہ لیے اسکرین پر نہیں آ سکتی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اس وقت کی اینکر مہتاب راشدی نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا جنہیں ہٹا دیا گیا تھا۔