بی کیونیوز! کسی گاؤں میں ایک عورت اپنے دو بیٹوں کے ساتھ رہتی تھی۔ بڑے بیٹے کا نام اکمل اور چھوٹے بیٹے کا نام افضل تھا۔ اکمل نویں جب کہ افضل آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ یہ امتحان کے دن تھے، افضل پرچے کی تیاری کر رہا تھا کہ یکایک چیخ و پکار کی آوازیں سن کر اس نے کتاب ہاتھ سے رکھ دی، اسی دوران اس کا بڑا بھائی اکمل بھاگتا ہوا آیا اور کمرے میں رکھی بالٹیاں اٹھا کر لے جانے لگا تو افضل کے پاس بیٹھی ہوئی امی نے
بیٹے کی یہ حرکت دیکھ کر اس سے پوچھا کہ بیٹا کیا ہوا ہے یہ بالٹیاں کہاں لے جا رہے ہو؟ وہ پریشانی کے عالم میں جلدی جلدی بولا کہ امی گلی میں ایک مکان کو آگ لگ گئی ہے۔ اس کی امی کے منہ سے گھبراہٹ کے عالم میں خود بخود ” کیا ” کا لفظ نکلا۔ یہ سن کر افضل بھی اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ کمرے سے باہر نکلے تو دیکھا کہ باہر دھواں ہی دھواں دکھائی دے رہا تھا، یہ دیکھ کر افضل جلدی سے باہر کی طرف بھاگا، اس کی امی اور بڑا بھائی اسے روکتے ہی رہ گئے۔۔ جب وہ نہ رکا تو اس کا بڑا بھائی اکمل تیزی سے اس کے پیچھے لپکا۔ بالٹیاں اس کے ہاتھ میں تھیں جب وہ کہتے ہوئے مکان کے پاس پہنچا تو افضل کسی کی بالٹی لے کر پائپ سے پانی بھر رہا تھا۔ یہ پائپ قریبی گھر سے لیا گیا تھا۔ ایک شور تھا جس کے باعث کان میں آواز نہیں پڑ رہی تھی ایسے میں اکمل نے افضل کے قریب آ کر اس کے کان میں کہا کہ تم گھر چلے جاؤ کل تمہارا پرچہ ہے جا کر اس کی تیاری کرو یہاں میں دیکھ لیتا ہوں۔ اس کی بات کے جواب میں افضل نے کوئی جواب نہ دیا وہ پرجوش انداز میں اپنے کام میں مصروف تھا لوگ دھڑا دھڑ آگ پر پانی ڈال رہے تھے پھر فائر بریگیڈ کی گاڑی بھی آگئی، اس کے عملے اور لوگوں نے مل کر جلد ہی آگ پر قابو پا لیا۔ اس دوران افضل کا دایاں ہاتھ آگ میں بری طرح جھلس گیا تھا وہ ڈاکٹر کے پاس گئے دوا لگوا کر واپس گھر آئے تو ان کی امی نے افضل کا جلا ہوا ہاتھ دیکھا تو چیخ اٹھی میں نے تمہیں منع بھی کیا تھا لیکن تم پر بھوت سوار تھا آگ بھجانے کا اب کس ہاتھ سے لکھو گے کل کا پرچہ۔۔ افضل نے جواب میں کچھ نہ کہا بس سر جھکائے کھڑا رہا۔۔ جلے ہوئے ہاتھ کہ وجہ سے
وہ پرچے نہ دے سکا امتحان سے رہ گیا اس کے ایک دوست نے کسی روز اس سے پوچھا تم بڑے قابل طالب علم ہو ہاتھ کے جل جانے کی وجہ سے تم پرچے نہیں دے سکے امتحان نہیں دے سکے تمہیں افسوس تو ضرور ہوا ہوگا؟ اس کی بات سن کر افضل مسکرایا اور کہنے لگا جی نہیں مجھے ذرا بھی افسوس نہیں ہے کہ میں امتحان سے رہ گیا۔ یہ وہ امتحان تھا جو میں ہاتھ ٹھیک ہونے پر دوبارہ دے سکوں گا یہ چند مضامین کا ہی امتحان تھا میری ذہنی صلاحیتوں کا۔۔ مگر وہ جو امتحان تھا وہ کسی کی مدد کرنے کا تھا انسانیت کو زندہ رکھنے کا تھا جب اس گھر کے مکین کی جان بچی تو آن کے دل میں ایک یہ بات ضرور ہوئی ہوگی کہ ہاں انسانیت اب بھی زندہ ہے کل کو کسی کے ساتھ کچھ برا ہوتا دیکھیں گے تو ان کی مدد ضرور کریں گے۔ میں خوش ہوں کہ میں اس امتحان میں کم از کم ناکام نہیں ہوا۔۔ اس کی بات سن کر دوست حیرت سے اس کا منہ دیکھتا رہا۔۔ دوستوں اس کہانی سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملا کہ دوسروں کی خدمت کرنے کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہنا چاہیے کیوں کہ اگر آج ہم کسی کی مدد کریں گے تو کل کو وہ ہماری مدد کرنے سے نہیں گھبرائیں گے۔