اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان میں نہ جانے کتنی خواتین غذائی قلت کے باعث موت کو منہ لگا لیتی ہیں، اگر آپ کی صحت اور وسائل اس نوعیت کی ہیں کہ آپ بچوں اور اپنی، دونوں کی صحت کا خیال رکھ سکتی ہیں، کھلانے کو کھانا اور پہنانے کو کپڑے ہیں، گھر والے آپ کے ساتھ دوستانہ ہیں۔
آپ سے اور آپ کے بچوں کا خیال رکھنے کا درد ہے تو ضرور پیدا کریں مگر صحت کو نظر انداز نہیں کریں، کیونکہ آپ کی صحت ہوگی تو ہی آپ بچے پال سکیں گی، آپ کی زندگی کا مقصد صرف بچے پیدا کرنا نہیں ہوتا، ایک ماں کو بچوں کی تربیت بھی کرنی ہوتی ہے اس کے لئے وقت درکار ہوتا ہے، پیسے کی ضرورت پڑتی ہے، اچھا ہمدرد شوہر چاہئے ہوتا ہے جسے بحیثیت شوہر اپنی ذمے داریوں کا احساس ہو، اگر آپ کا شوہر اس قابل نہیں تو اپنے وجود اور بچوں کے مستقبل پر رحم فرمائیے، شادی سزا نہیں ہوتی اور شوہر حاکم اور آپ ملازم نہیں ہوتیں، ہمارے ہاں بس یہی رجحان پایا جاتا ہے کہ بس جلدی جلدی بچے ہوں گے تو ایک ساتھ بڑے ہوجائیں گے،ماں کو زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی یہ نہیں سوچتے کہ ہر بچہ الگ توجہ مانگتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ سب بچوں کو ایک ساتھ بھوک لگے، نیند آئے، سارے ایک ساتھ کھییلیں اور ایک ساتھ نیند لیں۔ساری محنت ماں کی ہوتی ہے، اور اگر بچے نظر انداز ہوتے ہیں تو یہ کلمات تمغے کے طور پر دے دئے جاتے ہیں، تمھیں تو تربیت کرنی ہی نہیں آتی نہ بچے صاف رہتے ہیں نہ ہی گھر، میں یہ پوچھتی ہوں کہ وہ مرد حضرات جو ہر وقت بیوی کو بچوں کی تربیت کا درس دیتے ہیں خود کتنا وقت دیتے ہیں بچوں کو؟
بچوں کا رونا انھیں پسند نہیں ہوتا، نیند میں خلل آتا ہے، پاکی نا پاکی کا الگ شور، بیوی پر الگ الزام کہ اپنا خیال رکھنا نہیں آتا، اچھے کپڑے پہنا کرو، کیا حال بنا رکھا ہے، بچوں کو نہلا بھی دیا کرو، کوئی آئے گا تو کیا سوچے گا میری کیسی بیوی ہے، گھر کیسا رکھا ہوا ہے۔اس قسم کے مرد حضرات سے سوال کرنے کو دل چاہتا ہے کہ بھائی آپ نے بیگم کا کتنا خیال رکھا ہے؟ صرف اتنا کہ آپ اسے اپنی تنخواہ میں سے کچھ پیسے ہر ماہ دے دیا کرتے ہیں، اسے اپنے کمرے میں بچوں کی فوج ظفر موج کے ہمراہ رہنے کی اجازت دے دیتے ہیں اور بعض اوقات خود کسی اور کمرے میں جاکر آرام فرما لیتے ہیں تاکہ بیوی بچوں کے ساتھ سکون سے سوئے، شاید ہی سو میں سے کوئی پانچ فیصد مرد ایسے ہوتے ہیں جو بیوی کی صحت اور بچوں کی پرورش کے حوالے سے حساس اور فکرمند ہوتے ہیں اور آمدنی کو مد نظر رکھ کر فیملی پلان کرتے ہیں اور گھریلو معاملات کو بہتر طریقے سے سمجھنے اور بیوی کو سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مرد ہو یا عورت شادی کا مقصد بچوں کی گنتی پورا کرنا نہیں ہونا چاہئے،۔۔عورت کے منہ میں بھی خدا نے زبان دی ہے کہ وہ اپنے حق کے حوالے سے بات کرے، صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کی ہمت رکھتی ہو، جائز بات سنے، اور کرے ، آپ کوئی چابی کی گڑیا نہیں ہوتیں کہ آپ شوہر کو اس کی مرضی کا تماشہ دکھاٗ ئیں، جہاں بولنا ہے بولیں اور جہاں نہیں بولنا چپ رہیں لیکن اپنی صحت اور بچوں کے مستقبل پر سمجھوتا نہ کریں، آپ زندہ رہیں گی تو بچے پالیں گی، خوش ہوں گی تو شوہر کو خوش رکھ سکیں گی